دیوان دوم غزل 845
لیا چیرہ دستی سے گر میر سر تک
نہ پہنچا کبھو ہاتھ اس کی کمر تک
مجھے نیند کیسی کہ مانند انجم
کھلی رہتی ہیں میری آنکھیں سحر تک
اٹھا پاس بے اختیاری سے سب کا
بکا بیٹھے کرتے ہیں دو دو پہر تک
دماغ اور دل ہیں سراسیمہ دونوں
سرزخم شاید کہ پہنچا جگر تک
بلا شور و ہنگامہ ہے دل زدوں کا
قیامت کیے جائے ہے اس کے گھر تک
نہ دے ماریں چوکھٹ سے سر کو تو کہیو
رسائی ہوا چاہیے اس کے در تک
محبت میں جی سے گئے میر آخر
خبر گفتنی ہے یہ ہر بے خبر تک
میر تقی میر