مزہ رس میں ہے لوگے کیا تم کرس میں

دیوان پنجم غزل 1686
رساتے ہو آتے ہو اہل ہوس میں
مزہ رس میں ہے لوگے کیا تم کرس میں
درا میں کہاں شور ایسا دھرا تھا
کسو کا مگر دل رکھا تھا جرس میں
ہمیں عشق میں بیکسی بے بسی ہے
نہ دشمن بھی ہو دوستی کے تو بس میں
نہ رہ مطمئن تسمہ باز فلک سے
دغا سے یہ بہتوں کے کھینچے ہے تسمیں
بہت روئے پردے میں جب دیدئہ تر
ہوئی اچھی برسات تب اس برس میں
تن زرد و لاغر میں ظاہر رگیں ہیں
بھرا ہے مگر عشق اک ایک نس میں
محبت وفا مہر کرتے تھے باہم
اٹھا دی ہیں وے تم نے اب ساری رسمیں
تمھیں ربط لوگوں سے ہر قسم کے ہے
نہ کھایا کرو جھوٹی جھوٹی تو قسمیں
ہوا ہی کو دیکھیں ہیں اے میر اسیراں
لگادیں مگر آنکھیں چاک قفس میں
میر تقی میر