مجنوں مجنوں لوگ کہے ہیں مجنوں کیا ہم سا ہو گا

دیوان پنجم غزل 1555
دل تڑپے ہے جان کھپے ہے حال جگر کا کیا ہو گا
مجنوں مجنوں لوگ کہے ہیں مجنوں کیا ہم سا ہو گا
دیدئہ تر کو سمجھ کر اپنا ہم نے کیا کیا حفاظت کی
آہ نہ جانا روتے روتے یہ چشمہ دریا ہو گا
کیا جانیں آشفتہ دلاں کچھ ان سے ہم کو بحث نہیں
وہ جانے گا حال ہمارا جس کا دل بیجا ہو گا
پائوں حنائی اس کے لے آنکھوں پر اپنی ہم نے رکھے
یہ دیکھا نہ رنگ کفک پر ہنگامہ کیا برپا ہو گا
جاگہ سے بے تہ جاتے ہیں دعوے وے ہی کرتے ہیں
ان کو غرور و ناز نہ ہو گا جن کو کچھ آتا ہو گا
روبہ بہی اب لاہی چکے ہیں ہم سے قطع امید کرو
روگ لگا ہے عشق کا جس کو وہ اب کیا اچھا ہو گا
دل کی لاگ کہیں جو ہو تو میر چھپائے اس کو رکھ
یعنی عشق ہوا ظاہر تو لوگوں میں رسوا ہو گا
میر تقی میر