عاشقی کی تو کچھ ستم نہ ہوا

دیوان پنجم غزل 1561
چاہ میں جور ہم پہ کم نہ ہوا
عاشقی کی تو کچھ ستم نہ ہوا
فائدہ کیا نماز مسجد کا
قد ہی محراب سا جو خم نہ ہوا
یار ہمراہ نعش جس دم تھا
وائے مردے میں میرے دم نہ ہوا
نہ گیا اس طرف کا خط لکھنا
ہاتھ جب تک مرا قلم نہ ہوا
بے دلی میں ہے میر خوش اس سے
دل کے جانے کا حیف غم نہ ہوا
میر تقی میر