دھوم ہے پھر بہار آنے کی

دیوان دوم غزل 948
کچھ کرو فکر مجھ دوانے کی
دھوم ہے پھر بہار آنے کی
دل کا اس کنج لب سے دے ہیں نشاں
بات لگتی تو ہے ٹھکانے کی
وہ جو پھرتا ہے مجھ سے دور ہی دور
ہے یہ تقریب جی کے جانے کی
تیز یوں ہی نہ تھی شب آتش شوق
تھی خبر گرم اس کے آنے کی
خضر اس خط سبز پر تو موا
دھن ہے اب اپنے زہر کھانے کی
دل صد چاک باب زلف ہے لیک
بائو سی بندھ رہی ہے شانے کی
کسو کم ظرف نے لگائی آہ
تجھ سے میخانے کے جلانے کی
ورنہ اے شیخ شہر واجب تھی
جام داری شراب خانے کی
جو ہے سو پائمال غم ہے میر
چال بے ڈول ہے زمانے کی
میر تقی میر