دل کو ہمارے چین دے آنکھوں کو خواب دے

دیوان سوم غزل 1296
تسکین دردمندوں کو یارب شتاب دے
دل کو ہمارے چین دے آنکھوں کو خواب دے
اس کا غضب سے نامہ نہ لکھنا تو سہل ہے
لوگوں کے پوچھنے کا کوئی کیا جواب دے
گل ہے بہار تب ہے جب آنکھوں میں ہو نشہ
جاتی ہے فصل گل کہیں ساقی شراب دے
وہ تیغ میری تشنۂ خوں ہو گئی ہے کند
کر رحم مجھ پہ کاشکے یار اس کو آب دے
دو چار الم جو ہوویں تو ہیں بابت بتاں
کیا درد بے شمار کا کوئی حساب دے
تار نگہ کا سوت نہیں بندھتا ضعف سے
بیجان ہے یہ رشتہ دلا اس کو تاب دے
مژگان تر کو یار کے چہرے پہ کھول میر
اس آب خستہ سبزے کو ٹک آفتاب دے
میر تقی میر