خلل سا ہے دماغ آسماں میں

دیوان سوم غزل 1186
نئی گردش ہے اس کی ہر زماں میں
خلل سا ہے دماغ آسماں میں
ہوا تن ضعف سے ایسا کہے تو
کہ اب جی ہی نہیں اس ناتواں میں
کہا میں درد دل یا آگ اگلی
پھپھولے پڑ گئے میری زباں میں
متاع حسن یوسفؑ سی کہاں اب
تجسس کرتے ہیں ہر کارواں میں
بلاے جاں ہے وہ لڑکا پری زاد
اسی کا شور ہے پیر و جواں میں
بہت ناآشنا تھے لوگ یاں کے
چلے ہم چار دن رہ کر جہاں میں
تری شورش بھی بے کل ہے مگر میر
ملا دے پیس کر بجلی فغاں میں
میر تقی میر