دیوان پنجم غزل 1765
جو کوئی خستہ جگر عشق کا آزاری ہے
جی چکا وہ کہ یہ بے طرح کی بیماری ہے
کارواں گاہ جہاں میں نہیں رہتا کوئی
جس کے ہاں دیکھتے ہیں چلنے کی تیاری ہے
چیز و ناچیز کا آگاہ کو رہتا ہے لحاظ
سارے عالم میں حقیقت تو وہی ساری ہے
آئینہ روبرو رکھنے کو بھی اب جاے نہیں
صورتوں سے اسے ہم لوگوں کی بیزاری ہے
مر گئے عشق میں نازک بدنوں کے آخر
جان کا دینا محبت کی گنہگاری ہے
پلکیں وے اس کی پھری جی میں کھبی جاتی ہیں
آنکھ وہ دیکھے کوئی شوخی میں کیا پیاری ہے
بے قراری میں نہ دلبر سے اٹھا ہرگز ہاتھ
عشق کرنے کے تئیں شرط جگرداری ہے
وائے وہ طائر بے بال ہوس ناک جسے
شوق گل گشت گلستاں میں گرفتاری ہے
جرم بے جرم کھنچی رہتی ہے جس کی شمشیر
اس ستم گار جفاجو سے ہمیں یاری ہے
آنکھ مستی میں کسو پر نہیں پڑتی اس کی
یہ بھی اس سادہ و پرکار کی ہشیاری ہے
واں سے جز ناز و تبختر نہیں کچھ یاں سے میر
عجز ہے دوستی ہے عشق ہے غم خواری ہے
میر تقی میر