جاتا ہے جی چلا ہی مرا اضطراب میں

دیوان اول غزل 288
آیا کمال نقص مرے دل کی تاب میں
جاتا ہے جی چلا ہی مرا اضطراب میں
دوزخ کیا ہے سینہ مرا سوز عشق سے
اس دل جلے ہوئے کے سبب ہوں عذاب میں
مت کر نگاہ خشم یہی موت ہے مری
ساقی نہ زہر دے تو مجھے تو شراب میں
بیدار شور حشر نے سب کو کیا ولے
ہیں خون خفتہ اس کے شہیدوں کے خواب میں
دل لے کے رو بھی ٹک نہیں دیتے کہیں گے کیا
خوبان بد معاملہ یوم الحساب میں
جاکر در طبیب پہ بھی میں گرا ولے
جز آہ ان نے کچھ نہ کیا میرے باب میں
عیش و خوشی ہے شیب میں ہو گوپہ وہ کہاں
لذت جو ہے جوانی کے رنج و عتاب میں
دیں عمر خضر موسم پیری میں تو نہ لے
مرنا ہی اس سے خوب ہے عہد شباب میں
آنکلے تھے جو حضرت میر اس طرف کہیں
میں نے کیا سوال یہ ان کی جناب میں
حضرت سنو تو میں بھی تعلق کروں کہیں
فرمانے لاگے روکے یہ اس کے جواب میں
تو جان لیک تجھ سے بھی آئے جو کل تھے یاں
ہیں آج صرف خاک جہان خراب میں
میر تقی میر