بیمار مرا گراں بہت ہے

دیوان پنجم غزل 1768
دل پہلو میں ناتواں بہت ہے
بیمار مرا گراں بہت ہے
ہر آن شکیب میں کمی ہے
بیتابی زماں زماں بہت ہے
مقصود کو دیکھیں پہنچے کب تک
گردش میں تو آسماں بہت ہے
جی کو نہیں لاگ لامکاں سے
ہم کو کوئی دل مکاں بہت ہے
گو خاک سے گور ہووے یکساں
گم گشتے کا یہ نشاں بہت ہے
جاں بخشی غیر ہی کیا کر
مجھ کو یہی نیم جاں بہت ہے
اکثر پوچھے ہے جیتے ہیں میر
اب تو کچھ مہرباں بہت ہے
میر تقی میر