اثبات ہوا جرم محبت کا اسی سے

دیوان دوم غزل 978
تابوت مرا دیر اٹھا اس کی گلی سے
اثبات ہوا جرم محبت کا اسی سے
تم چھیڑتے ہو بزم میں مجھ کو تو ہنسی سے
پر مجھ پہ جو ہو جائے ہے پوچھو مرے جی سے
آتش بہ جگر اس در نایاب سے سب ہیں
دریا بھی نظر آئے اسی خشک لبی سے
گر ٹھہرے ملک آگے انھوں کے تو عجب ہے
پھرتے ہیں پڑے دلی کے لونڈے جو پری سے
نکلا جو کوئی واں سے تو پھر مر ہی کے نکلا
اس کوچے سے جاتے ہوئے دیکھا کسے جی سے
ہمسائے مجھے رات کو رویا ہی کرے ہیں
سوتے نہیں بے چارے مری نالہ کشی سے
تم نے تو ادھر دیکھنے کی کھائی ہے سوگند
اب ہم بھی لڑا بیٹھتے ہیں آنکھ کسی سے
چھاتی کہیں پھٹ جائے کہ ٹک دل بھی ہوا کھائے
اب دم تو لگے رکنے ہماری خفگی سے
اس شوخ کا تمکین سے آنا ہے قیامت
اکتانے لگے ہم نفساں تم تو ابھی سے
نالاں مجھے دیکھے ہیں بتاں تس پہ ہیں خاموش
فریاد ہے اس قوم کی فریاد رسی سے
تالو سے زباں رات کو مطلق نہیں لگتی
عالم ہے سیہ خانہ مری نوحہ گری سے
بے رحم وہ تجھ پاس لگا بیٹھنے جب دیر
ہم میر سے دل اپنے اٹھائے تھے تبھی سے
میر تقی میر