اب کب گئی اٹھائی ہے زور ناتوانی

دیوان چہارم غزل 1501
اکثر کی بے دماغی ہر دم کی سرگرانی
اب کب گئی اٹھائی ہے زور ناتوانی
تم دل کو دیتے ہو تو بے دل سمجھ کے ہوجو
ہم نے تو قدر دل کی افسوس کچھ نہ جانی
عہد شباب کی تو فرصت تھی ایک چشمک
مژگاں بہم زدن میں جاتی رہی جوانی
حسرت سے دیکھ رہیو اے نامہ بر منھ اس کا
بس اور کچھ نہ کہیو ہرگز مری زبانی
اس غیرت قمر کی خجلت سے تاب رخ کی
آئینہ تو سراسر ہوتا ہے پانی پانی
مرزائی فقر میں بھی دل سے گئی نہ میرے
چہرے کے رنگ اپنے چادر کی زعفرانی
یوں میر تو غم اپنا برسوں کہا کریں گے
اب رات کم ہے سوئو بس ہو چکی کہانی
میر تقی میر