ابر بہاری وادی سے اٹھ کر آبادی پر آیا ہے

دیوان پنجم غزل 1746
عہد جنوں ہے موسم گل کا اور شگوفہ لایا ہے
ابر بہاری وادی سے اٹھ کر آبادی پر آیا ہے
سن کر میرے شور شب کو جھنجھلا کر وہ کہنے لگا
نالے اس کے فلک تک پہنچے کن نے اس کو ستایا ہے
دکھن اتر پورب پچھم ہنگامہ ہے سب جاگہ
اودھم میرے حرف و سخن نے چاروں اور مچایا ہے
بے چشم و رو ہو بیٹھے ہو وجہ نہیں ہے ظاہر کچھ
کام کی صورت بگڑی ہماری منھ کیوں تم نے بنایا ہے
ظلم و ستم سب سہل ہیں اس کے ہم سے اٹھتے ہیں کہ نہیں
لوگ جو پرسش حال کریں ہیں جی تو انھوں نے کھایا ہے
ہو کے فقیر تو واں بیٹھے ہیں رہتے ہیں اشراف جہاں
ہم نے توکل بحت کیا ہے نام خدا سرمایہ ہے
برسوں ہم درویش رہے ہیں پردے میں دنیاداری کے
ناموس اس کی کیونکے رہے یہ پردہ جن نے اٹھایا ہے
ڈھونڈ نکالا تھا جو اسے سو آپ کو بھی ہم کھو بیٹھے
جیسا نہال لگایا ہم نے ویسا ہی پھل پایا ہے
میر غریب سے کیا ہو معارض گوشے میں اس وادی کے
ایک دیا سا بجھتا ان نے داغ جگر پہ جلایا ہے
میر تقی میر