نظم

اب وہ کہتے ہیں تم کوئی چارہ کرو

جب کوئی عہد و پیماں سلامت نہیں

اب کسی کنج میں بے اماں شہر کی

کوئی دل کوئی داماں سلامت نہیں

تم نے دیکھا ہے سر سبز پیڑوں پہ اب

سارے برگ و ثمر خار و خس ہو گئے

اب کہاں خوبصورت پرندوں کی رت

جو نشیمن تھے اب وہ قفس ہو گئے

صحن گلزار خاشاک کا ڈھیر

اب درختوں کے تن پر قبائیں کہاں

سرو و شمشاد سے قمریاں اڑ گئیں

شاخ زیتون پر فاختائیں کہاں

شیخ منبر پہ نا معتبر ہو چکا

رند بدنام کوئے خرابات میں

فاصلہ ہو تو ہو فرق کچھ بھی نہیں

فتوہ دیں میں ہو اور کفر کی بات میں

اب تو سب رازداں ہمنوا نامہ بر

کوئے جانا ں کے سب آشنا جا چکے

کوئی زندہ گواہی بچی ہی نہیں

سب گنہگار سب پارسا جا چکے

اب کوئی کس طرح قم بہ اذنی کہے

اب کہ جب شہر کا شہر سنسان ہے

حرف عیسیٰ نہ صور اسرافیل ہے

حشر کا دن قیامت کا میدان ہے

مرگ انبوہ بھی جشن ساماں نہیں

اب کوئی قتل گاہوں میں جائے تو کیا

کب سے توقیر لالہ قبائی گئی

کوئی اپنے لہو میں نہائے تو کیا

پروین شاکر

جواب دیں

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

آپ اپنے WordPress.com اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Facebook photo

آپ اپنے Facebook اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Connecting to %s