آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 100
وہ کون اور کہاں ہے ابھی یہ طے ہی نہیں
میں ڈھونڈتا ہوں جِسے غالباً وہ ہے ہی نہیں
بغیر اُس کے کہاں کثرتیں اکائی بنیں
کہ سا زِ ہفتِ نوا میں وہ ایک لے ہی نہیں
فریبِ نشّہ بھی نشّے کی ایک صورت ہے
کہ پی رہا ہوں پیالے میں گرچہ مے ہی نہیں
نکال دے جو سمندر کو اپنے ساحل سے
سرِشتِ آب میں وہ موج پے بہ پے ہی نہیں
میں کائنات ہوں اپنے وجود کے اندر
مرے قریب یہ دنیا تو کوئی شے ہی نہیں
آفتاب اقبال شمیم