مکاں میں رہتے ہوئے بھی رہوں مکاں سے پرے

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 61
وُہ بے دلی ہے کہ زندہ ہوں جسم و جاں سے پرے
مکاں میں رہتے ہوئے بھی رہوں مکاں سے پرے
خفاں کہ ایک ستارہ نہ زیرِ دام آیا
کمندِ فکر تو ڈالی تھی کہکشاں سے پرے
سماعتوں پہ جھمکے ہیں عجیب سائے سے
نکلی گیا ہوں میں شاید حدِ بیاں سے پرے
بلا سے سامنے آئے کہ بے نمود رہے
وُہ حادثہ کہ ابھی ہے مرے گماں سے پرے
ابھی سے بننے لگیں وہم کی پناہ گاہیں
ابھی تو حشر کا سورج ہے سائباں سے پرے
کچھ ایسا لطف ملا خود یہ رحم کھانے میں
گیا نہ شوقِ غزل لذت زیاں سے پرے
آفتاب اقبال شمیم

جواب دیں

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

آپ اپنے WordPress.com اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Facebook photo

آپ اپنے Facebook اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Connecting to %s