یعنی منصوبہ زمانے کا مکمل ہو گیا

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 55
اک فنا کے گھاٹ اُترا، ایک پاگل ہو گیا
یعنی منصوبہ زمانے کا مکمل ہو گیا
جسم کے برفاب میں آنکھیں چمکتی ہیں ابھی
کون کہتا ہے اُس کا حوصلہ شل ہو گیا
ذہن پر بے سمتیوں کی بارشیں اتنی ہوئیں
یہ علاقہ تو گھنے راستوں کا جنگل ہو گیا
اس کلید اسم نا معلوم سے کیسے کُھلے
دل کا دروازہ کہ اندر سے مقفل ہو گیا
شعلہ زار گُل سے گزرے تو سرِ آغاز ہی
اک شرر آنکھوں سے اُترا، خون میں حل ہو گیا
شہر آئندہ کا دریا ہے گرفت ریگ میں
بس کہ جو ہونا ہے، اُسکا فیصلہ کل ہو گیا
موسمِ خیراتِگُل آتا ہے کس کے نام پر
کون ہے جس کا لہو اِس خاک میں حل ہو گیا
اس قدر خوابوں کو مسلا پائے آہن پوش نے
شوق کا آئین بالآخر معطل ہو گیا
آفتاب اقبال شمیم

جواب دیں

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

آپ اپنے WordPress.com اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Facebook photo

آپ اپنے Facebook اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Connecting to %s