آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 41
کثرتِ جلوۂ امکان کو چل کر دیکھیں
کوچۂ بند باہر تو نکل کر دیکھیں
اپنی پس ماندگیاں ، راحتیں لگتی ہیں جنہیں
تکیۂ عادت تکرار بدل کر دیکھیں
جنبشِ لطف سے دستار نہ گر جائے کہیں
بام سے منظر دنیا کو سنبھل کر دیکھیں
پا فتادہ سرِ دریا ہوں کھڑا برسوں سے
اور لہریں مجھے دریا سے اُچھل کر دیکھیں
گرمیِٔ مے سے ہوں شفاف یہ سیسہ آنکھیں
آؤ اِس شعلۂ شب تاب میں جل کر دیکھیں
زندگی کوئی کلیشے تو نہیں جینے کا
اسکی صد زاویہ راہوں میں نکل کر دیکھیں
عمرِ کوتاہ گزرنے کو ہے آؤ! آؤ!
اسکے ہر نور میں ہر نار میں ڈھل کر دیکھیں
آفتاب اقبال شمیم