آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 51
شہر کے شہر میں بیداری تھی
اُس پہ وُہ رات بہت بھاری تھی
دستِ قاتل کو ملے دادِ کمال
ضرب ہلکی تھی مگر کاری تھی
میں جو سمجھا وُہ نہیں تھا شاید
لفظ میں حکمتِ تہ داری تھی
میں پگھلتا ہی، پگھلتا ہی گیا
عشق کی اوّلین سرشاری تھی
نصف افلاک سے میں لوٹ آیا
اپنی مٹی سے مری یاری تھی
یاس کیسی کہ یہ بازی ہم نے
کبھی جیتی تھی کبھی ہاری تھی
مر گئے ہوتے اگر مر سکتے
ایک اقرار کی دشواری تھی
آفتاب اقبال شمیم