آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 54
ہر کسی کا ہر کسی سے رابطہ ٹوٹا ہوا
آنکھ سے منظر، خبر سے واقعہ ٹوٹا ہوا
کیوں یہ ہم صورت رواں ہیں مختلف اطراف میں
ہے کہیں سے قافلے کا سلسلہ ٹوٹا ہوا!
وائے مجبوری کہ اپنا مسخ چہرہ دیکھئے
سامنے رکھا گیا ہے آئنہ ٹوٹا ہوا
خود بخود بدلے تو بدلے یہ زمیں ، اس کے سوا
کیا بشارت دے ہمارا حوصلہ ٹوٹا ہوا
خواب سے آگے شکستِ خواب کا تھا سامنا
یہ سفر تھا مرحلہ در مرحلہ ٹوٹا ہوا
کچھ تغافل بھی خبر داری میں شامل کیجئے
ورنہ کر ڈالے گا پاگل، واہمہ ٹوٹا ہوا
آفتاب اقبال شمیم