آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 35
تشنہ لبِ سوال کو دیکھئے کب شفا ملے
کوئی جواب مِثل آب سادہ و جاں فزا ملے
اپنی پرانی اصل پر آتا ہوں لوٹ لوٹ کر
سمجھوں میں انتہا جسے وہ مجھے ابتدا ملے
سرد حقیقتوں سے دور جبرِ یقین سے پرے
پائیں نمو، یہ ذہن و دل ایسی کوئی جگہ ملے
اپنے ہی آپ میں رہے گنجِ لئیم کی طرح
اُس بتِ خود پسند سے دل کی نیاز کیا ملے
ہار گیا ہوں بار بار، اتنا مگر ضرور ہے
ہاتھ قمار باز کا بدلا ہوا ذرا ملے
اُس جا تمہاری آس کیا اور ہماری یاس کیا
دھوپ جہاں سفر میں ہو سایہ گریز پا ملے
آفتاب اقبال شمیم