آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 27
یہ وقت آساں ، کبھی عدو پر گراں بھی ہو گا
وہ معجزہ جو وہاں ہوا ہے یہاں بھی ہو گا
یہی سجھائے ہمیں یہ ٹھہرا ہوا ستارہ
کہ جو بظاہر رُکا ہوا ہے رواں بھی ہو گا
اگر سفر میں رہا نہ آگے سے اور آگے
تو پھر وہ شہرِ مثال ہم پر عیاں بھی ہو گا
اُداس مت ہو خدا اگر واقعی خدا ہے
ضرور اِن بستیوں پہ وہ مہرباں بھی ہو گا
چلو تو یاروں کی چاہتیں ساتھ لیتے جاؤ
کہ راستے میں قبیلۂ دشمناں بھی ہو گا
بگاڑ بیٹھے ہو دل سے ان دنیا داریوں میں
کہا نہ تھا ایسے فائدے میں زیاں بھی ہو گا
آفتاب اقبال شمیم