آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 2
آ یہیں ، عمر پسِ عمر گزاری جائے
جان سو بار اسی خاک پہ واری جائے
یہ جاہِ دنیا کروں گا کیا میں
تمہی سنبھالو اسے، چلا میں
انا کے اندر بھی اک انا ہے
وگرنہ کیوں خود سے ہوں خفا میں
تنہائی میں اک لمحے کو ٹھہرا کے امر کر لیتا ہوں
اور اپنے لہو کے رستے پر صدیوں کا سفر کر لیتا ہوں
احساس کی دو دنیاؤں میں جو دوری ہے، مجبوری ہے
تو جس پہ تبسم کرتا ہے میں آنکھیں تر کر لیتا ہوں
تو کیا ضرور ہے دل پر اثر لیا جائے
یہی طریقۂ دنیا ہے، کیا کیا جائے
پھر کیوں نہ دوسروں سے ہمیں اجتناب ہو
جب اپنے آپ سے ہی تعلق خراب ہو
ضبط کے گونگے سناٹے میں کوئی رہائی کب دے گا
وہ آنسو جو روک رکھا ہے اُس کو دہائی کب دے گا
کون تھا جو دور بھی رہ کر تمہارے اس تھا
وصل زار خواب میں شب بھر تمہارے پاس تھا
تم سے اے دنیا! یہ رشتہ تو ہمیشہ یہی رہا
سر ہمارے پاس تھا پتھر تمہارے پاس تھا
خدا تھا، کیا تھا مجھے بے شعور کر دیتا
تھکاوٹیں مرے جینے کی دور کر دیتا
کوئی مفاہمت بھی اُصولی نہ کر سکا
میں اپنے دل کی حکم عدولی نہ کر سکا
اک فاصلہ رہا مرا غم ناشناس سے
میں دادِ ناروا کی وصولی نہ کر سکا
آفتاب اقبال شمیم