چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے

فیض احمد فیض ۔ غزل نمبر 15
گلوں میں رنگ بھرے بادِ نو بہار چلے
چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے
قفس اداس ہے یارو صبا سے کچھ تو کہو
کہیں تو بہرِ خدا آج ذکرِ یار چلے
کبھی تو صبح ترے کنجِ لب سے ہو آغاز
کبھی تو شب سرِ کاکل سے مشکبار چلے
بڑا ھے درد کا رشتہ، یہ دل غریب سہی
تمہارے نام پہ آئیں گے غمگسار چلے
جو ہم پہ گزری سو گزری مگر شبِ ہجراں
ہمارے اشک تری عاقبت سنوار چلے
حضورِ‌ یار ہوئی دفترِ جنوں کی طلب
گرہ میں لے کے گریباں کا تار تار چلے
مقام، فیض، کوئی راہ میں جچا ہی نہیں
جو کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے
منٹگمری جیل
فیض احمد فیض

جواب دیں

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

آپ اپنے WordPress.com اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Twitter picture

آپ اپنے Twitter اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Facebook photo

آپ اپنے Facebook اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Connecting to %s