بربط دل کے تار ٹوٹ گئے
ہیں زمیں بوس راحتوں کے محل
مٹ گئے قصہ ہائے فکر و عمل
بزم ہستی کے جام پھوٹ گئے
چھن گیا کیف کوثر و تسنیم
زحمت گریہ و بکا بے سود
شکوۂ بخت نارسا بے سود
ہوچکا ختم رحمتوں کا نزول
بند ہے مدتوں سے باب قبول
بے نیاز دعا ہے رب کریم
بجھ گئی شمع آرزوئے جمیل
یاد باقی ہے بے کسی کی دلیل
انتظار فضول رہنے دے
راز الفت نباہنے والے
بار غم سے کراہنے والے
کاوش بے حصول رہنے دے
فیض احمد فیض