تین منظر

تصور

شوخیاں مضطر نگاہ دیدۂ سرشار میں

عشرتیں خوابیدہ رنگ غازۂ رخسار میں

سرخ ہونٹوں پر تبسم کی ضیائیں جس طرح

یاسمن کے پھول ڈوبے ہوں مئے گلنار میں

سامنا

چھنتی ہوئی نظروں سے جذبات کی دنیائیں

بے خوابیاں، افسانے، مہتاب ، تمنائیں

کچھ الجھی ہوئی باتیں، کچھ بہکے ہوئے نغمے

کچھ اشک جو آنکھوں سے بے وجہ چھلک جائیں

رخصت

فسردہ رخ، لبوں پر اک نیاز آمیز خاموشی

تبسم مضمحل تھا مرمریں ہاتھوں میں لرزش تھی

وہ کیسی بے کسی تھی تیری پر تمکیں نگاہوں میں

وہ کیا دکھ تھا تری سہمی ہوئی خاموش آہوں میں

فیض احمد فیض

تبصرہ کریں