کیسے جاؤں، کیسے پہنچوں یادوں کے اس دیس
جہاں کبھی اک آنگن کی دیوار پہ چپکے سے
دودھ کا ایک کٹورا رکھ جاتے تھے میرے لیے
غیبی ہاتھ ۔۔۔ جنھیں مٹی کی تہوں نے ڈھانپ لیا
جہاں کبھی اک قبے دار مکاں میں شام ڈھلے
نیلے پیلے شیشوں والے صندوقوں کے پاس
میرے لیے آٹے کے کھلونے توے پہ تلتے تھے
اچھے ہاتھ ۔۔۔ جو مٹی کے کنگن میں گئے پتھرا
شاید ان دو قبروں کے اَب مٹ بھی چکے ہوں نشان
لیکن اس بجریلے پتھر پر اب بھی ہیں میرے ساتھ
وہ دو محافظ روحیں جن کے چار مقدس ہاتھ
ڈھال گئے ہیں انگاروں میں انگ انگ مرا
مجید امجد