نظم

دکھ کا ہر بہروپ انوکھا

ہر الجھن کا روپ انوکھا

غم کو جب اس دھرتی پر پرکھا

اک پل دھوپ اور اک پل برکھا

دردوں کے بندھن میں تڑپیں

لاکھوں جسم اور لاکھوں روحیں

میں جس آگ سے کلیاں چھانوں

میرا قصہ ہے، میں جانوں

شام ہوئی ہے، سوچ رہا ہوں

تو سورج ہے، میں دنیا ہوں

لوٹ کے آنا تیرے بس میں

تجھ کو پانا تیرے بس میں

سایوں کی اک اک کروٹ پر

زنجیروں میں ڈوب گیا ہوں

دل میں چند شرارے لے کر

اپنی راکھ سے کھیل رہا ہوں

مجید امجد

جواب دیں

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

آپ اپنے WordPress.com اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Facebook photo

آپ اپنے Facebook اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Connecting to %s