یہ دھوپ جس کا مہین آنچل
ہوا سے مس ہے ۔۔۔
رُتوں کا رس ہے!
تمام چاندی جو نرم مٹی نے پھوٹتے بور کی چٹکتی چنبیلیوں میں انڈیل دی ہے
تمام سونا جو پانیوں ٹہنیوں شگوفوں میں بہہ کے ان زرد سنگتروں سے ابل پڑا ہے
تمام دھرتی کا دھن جو بھیدوں کے بھیس میں دور دور تک سرد ڈالیوں پر بکھر گیا ہے
رُتوں کا رس ہے
رُتوں کے رس کو گداز کر لو
سبو میں بھر لو
یہ پتیوں پر جمے ہوئے زرد زرد شعلے، یہ شاخساروں پہ پیلے پیلے پھلوں کے گچھے
جو سبز صبحوں کی ضو میں پل کر، کڑی دوپہروں کی لو میں ڈھل کر
خنک شعاعوں کی اوس پی کر
رُتوں کے امرت سے اپنے نازک وجود کے آبگینے بھر کر
حدِ نظر تک بساطِ زر پر لہک رہے ہیں
شراب ان کی کشید کر لو
سبو میں بھر لو
سبو میں بھر لو یہ مدھ، یہ مدرا، کہ اس کی ہر بوند سال بھر سو صراحیوں میں دیے جلائے
یہی قرینہ ہے زندگی کا، اسی طرح سے، لہکتے قرنوں کے اس چمن میں، نہ جانے کب سے
ہزارہا پتتے سورج لنڈھا رہے ہیں وہ پگھلا تانبا، وہ دھوپ جس کا مہین آنچل
دِلوں سے مس ہے، وہ زہر جس میں دکھوں کا رس ہے
جو ہو سکے تو اس آگ سے بھر لو من کی چھاگل
کبھی کبھی ایک بوند اس کی کسی نوا میں دیا جلائے
تو وقت کی پینگ جھول جائے
کیا شاندار نظم ہے ۔ مجید امجد کے ہاں دھرتی ، فطرت ، اس کے رنگ ، آہنگ اور آواز ، یہ سبھی یکجا ہو جاتے ہیں اور اس کا قلم یہ سبھی کرامات کاغذ پر بکھیرتا چلا جاتا ہے ۔ زندگی فطرت کے بے شمار چھوٹے چھوٹے معجزات سے عبارت ہے ، بس دیکھنے کو دل کی آنکھ وا ہو ۔۔۔۔
پسند کریںپسند کریں