ترے لہو کی تڑپتی ہوئی حرارت ہے

مجید امجد ۔ غزل نمبر 81
وہ شے جو ایک نئے دور کی بشارت ہے
ترے لہو کی تڑپتی ہوئی حرارت ہے
نظامِ کہنہ کے سائے میں عافیت سے نہ بیٹھ
نظامِ کہنہ تو گرتی ہوئی عمارت ہے
وطن چمکتے ہوئے کنکروں کا نام نہیں
یہ تیرے جسم، تری روح سے عبارت ہے
یہ کہہ رہی ہے صدا ٹوٹتے سلاسل کی
کہ زندگی تو فقط اک حسیں جسارت ہے
یہ اک جھلک ہے بدلتے ہوئے زمانوں کی
جبیں جبیں پہ شکن بھی کوئی بجھارت ہے
چمن میں اہلِ چمن کے یہ طور، ارے توبہ
کلی کلی کی ہنسی خندۂ حقارت ہے
دلوں کی جھونپڑیوں میں بھی روشنی اترے
جو یوں نہیں تو یہ سب سیلِ نور اکارت ہے
مجید امجد

جواب دیں

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

آپ اپنے WordPress.com اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Twitter picture

آپ اپنے Twitter اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Facebook photo

آپ اپنے Facebook اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Connecting to %s