عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 342
پس حصار خبر آتی جاتی رہتی ہے
ہوا ادھر سے اُدھر آتی جاتی رہتی ہے
پرند لوٹ بھی آئیں خلاء سے شاخوں پر
کہ فصلِ برق و شرر آتی جاتی رہتی ہے
یہاں بھی دل میں دیئے جلتے بجھتے رہتے ہیں
ہمارے گھر بھی سحر آتی جاتی رہتی ہے
غبار میں کوئی ناقہ سوار ہو شاید
سو راستے پہ نظر آتی جاتی رہتی ہے
دُعا کرو کہ سلامت رہے شجر کا بدن
بہارِ برگ و ثمر آتی جاتی رہتی ہے
عرفان صدیقی