عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 343
بادبانوں کی طرف دیکھنے والا میں کون
کشتیاں کس کی ہیں‘ سفاک ہوا کس کی ہے
کس نے اس ریت پہ گلبرگ بچھا رکھے ہیں
یہ زمیں کس کی ہے‘ یہ موجِ صبا کس کی ہے
کس نے بھیجا ہے غبارِ شبِ ہجرت ہم کو
کیا خبر اپنے سروں پر یہ رِدا کس کی ہے
کون بجھتے ہوئے منظر میں جلاتا ہے چراغ
سرمئی شام، یہ تحریرِ حنا کس کی ہے
کیسے آشوب میں زندہ ہے مرادوں کی طرح
جانے بھاگوں بھری بستی پہ دُعا کس کی ہے
عرفان صدیقی