عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 345
واقعی کیا اِسی قاتل کی طرف توُ بھی ہے
توُ بھی ہے، اَے مری جاں تیغ بکف توُ بھی ہے
آسماں اپنی کماں توڑ چکا، یہ نہ سمجھ
اَب کوئی تِیر جو چھوٹا تو ہدف توُ بھی ہے
تیز رفتار ہیں دُشمن کے فرس تجھ سے سوا
میرے بعد اَے مری بکھری ہوئی صف توُ بھی ہے
عرفان صدیقی