عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 304
جدھر بھی دیکھئے دل کی حریف دُنیا ہے
یہ کون شعبدہ گر ہے، یہ کیا تماشا ہے
ذرا بدن کسی موجِ رواں کو سونپ کے دیکھ
کنارِ آب مری جان سوچتا کیا ہے
تو کون ہیں یہ مرے ساتھ چلنے والے لوگ
وہ کہہ رہا تھا کہ ہر آدمی اکیلا ہے
رفاقتوں کو ذرا سوچنے کا موقع دو
کہ اس کے بعد گھنے جنگلوں کا رستہ ہے
خدا رکھے تری کھیتی ہری بھری، لیکن
تو اس پہ اتنا بھروسہ نہ کر، یہ دریا ہے
عرفان صدیقی