عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 305
زمیں پر شورِ محشر روز و شب ہوتا ہی رہتا ہے
ہم اپنے گیت گائیں یہ تو سب ہوتا ہی رہتا ہے
یہ ہم نے بھی سنا ہے عالمِ اسباب ہے دُنیا
یہاں پھر بھی بہت کچھ بے سبب ہوتا ہی رہتاہے
مسافر رات کو اس دشت میں بھی رک ہی جاتے ہیں
ہمارے دل میں بھی جشنِ طرب ہوتا ہی رہتا ہے
کوئی شے طشت میں ہم سر سے کم قیمت نہیں رکھتے
سو اکثر ہم سے نذرانہ طلب ہوتا ہی رہتا ہے
عرفان صدیقی