عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 306
مرا چراغ تو جانے کہاں سے آتا ہے
مگر اُجالا مرے سوز جاں سے آتا ہے
نشانہ باز کوئی اور ہے عدو کوئی اور
کسی کا تیر کسی کی کماں سے آتا ہے
مجھے کمی نہیں رہتی کبھی محبت کی
یہ میرا رزق ہے اور آسماں سے آتا ہے
وہ دشت شب کا مسافر ہے اس کو کیا معلوم
یہ نور خیمہ گہہ رہزناں سے آتا ہے
عرفان صدیقی