عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 295
میں تو اِک بادل کا ٹکڑا ہوں، اُڑالے چل مجھے
تو جہاں چاہے وہاں موجِ ہوا لے چل مجھے
خوُد ہی نیلے پانیوں میں پھر بلالے گا کوئی
ساحلوں کی ریت تک اَے نقشِ پا لے چل مجھے
تجھ کو اِس سے کیا میں اَمرت ہوں کہ اِک پانی کی بوُند
چارہ گر، سوکھی زبانوں تک ذرا لے چل مجھے
کب تک اِن سڑکوں پہ بھٹکوں گا بگولوں کی طرح
میں بھی کچھ آنکھوں کی ٹھنڈک ہوں صبا لے چل مجھے
اَجنبی رَستوں میں آخر دُھول ہی دیتی ہے ساتھ
جانے والے اَپنے دامن سے لگا لے چل مجھے
بند ہیں اس شہرِ ناپرساں کے دروازے تمام
اَب مرے گھر اَے مری ماں کی دُعا لے چل مجھے
عرفان صدیقی