عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 272
کیا ہرن ہے کہ کبھی رم نہیں کرتا ہم سے
فاصلہ اپنا مگر کم نہیں کرتا ہم سے
پیکر سادہ ہے اور دل سے وہ کرتا ہے سلوک
جو کبھی حسنِ دو عالم نہیں کرتا ہم سے
خود ہی شاداب ہے وہ لالۂ صحرا ایسا
خواہشِ قطرۂ شبنم نہیں کرتا ہم سے
کیا خبر کون سی تقصیر پہ ناراض نہ ہو
وہ شکایت بھی تو پیہم نہیں کرتا ہم سے
صبر اے عشق‘ وہ خواہاں ہے شکیبائی کا
طلبِ دیدۂ پر نم نہیں کرتا ہم سے
عرفان صدیقی