عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 270
جھلس رہے ہیں کڑی دُھوپ میں شجر میرے
برس رہا ہے کہاں اَبر بے خبر میرے
گرا تو کوئی جزیرہ نہ تھا سمندر میں
کہ پانیوں پہ کھلے بھی بہت تھے پر میرے
اَب اِس کے بعد گھنے جنگلوں کی منزل ہے
یہ وقت ہے کہ پلٹ جائیں ہمسفر میرے
خبر نہیں ہے مرے گھر نہ آنے والے کو
کہ اُس کے قد سے تو اُونچے ہیں بام و در میرے
بہت ہے آئینے جن قیمتوں پہ بک جائیں
یہ پتھروں کا زمانہ ہے، شیشہ گر میرے
حریفِ تیغِ ستم گر تو کر دیا ہے تجھے
اَب اور مجھ سے توُ کیا چاہتا ہے سر میرے
عرفان صدیقی