عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 255
نہ جانے اِتنے وفا ناشناس کیسے ہوئے
تمہارے ہوتے ہوئے ہم اُداس کیسے ہوئے
جو خواب میں نظر آتے تو چونک جاتا تھا
وہ حادثے مری آنکھوں کو راس کیسے ہوئے
دِلوں میں اَب وہ پُرانی کدورتیں بھی نہیں
یہ سایہ دار شجر بے لباس کیسے ہوئے
یہ نرم لہجہ تمہارا چلن نہ تھا عرفانؔ
تم آج ایسے زمانہ شناس کیسے ہوئے
عرفان صدیقی