گزر چکے ہیں یہ لشکر یہاں سے پہلے بھی

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 232
سروں کو ربط رہا ہے سناں سے پہلے بھی
گزر چکے ہیں یہ لشکر یہاں سے پہلے بھی
یہ پہلی چیخ نہیں ہے ترے خرابے میں
کہ حشر اُٹّھے ہیں میری فغاں سے پہلے بھی
ہماری خاک پہ صحرا تھا مہرباں بہت
ہوائے کوفۂ نامہرباں سے پہلے بھی
بجھا چکے ہیں پرانی رفاقتوں کے چراغ
بچھڑنے والے شبِ درمیاں سے پہلے بھی
ہمیں نہیں ہیں ہلاکِ وفا کہ لوگوں پر
چلے ہیں تیر صفِ دوستاں سے پہلے بھی
عرفان صدیقی

جواب دیں

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

آپ اپنے WordPress.com اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Twitter picture

آپ اپنے Twitter اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Facebook photo

آپ اپنے Facebook اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Connecting to %s