عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 234
یہ کون سے صحرا کی پُراسرار ہوا تھی
پل بھر میں نہ دریا تھا نہ میں تھا نہ گھٹا تھی
جنگل تھا نہ بادل تھا نہ ساحل تھا نہ دل تھا
آندھی تھی نہ بارش تھی گرج تھی نہ صدا تھی
طائر سفر آمادہ تھے گھر تھا کہ شجر تھا
جھیلوں کا بلاوا تھا، پہاڑوں کی ندا تھی
کل نیند کی آنکھوں میں چمکتے تھے ستارے
کل خواب بچھونوں پہ کھلونوں کی ضیا تھی
کل رات سناتی تھی فرشتوں کی کہانی
کل نرم رداؤں میں ڈُعاؤں کی ضیا تھی
بانہوں پہ نگاہوں کے بندھے رہتے تھے تعویذ
گھیروں سے سویروں کو نکلنے پہ سزا تھی
دالانوں میں سو جاتے تھے سہمے ہوئے بچے
افسوں تھا کہ شب گشت فقیروں کی صدا تھی
چھت نار درختوں میں چھپی رہتی تھی دوپہر
اک آم کی گٹھلی میں نفیری کی ندا تھی
مٹی کے چراغوں میں جلا کرتی تھیں راتیں
چڑیوں کے بسیروں میں سویروں کی صدا تھی
پلکوں سے گرا کرتے تھے بھیگے ہوئے جگنو
پھیلے ہوئے ہاتھوں پہ شفق تھی نہ حنا تھی
عرفان صدیقی