عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 231
آجا کبھی ہم گوشہ نشیناں کے لئے بھی
شانہ ہو کوئی دیدۂ گریاں کے لئے بھی
کیا سیر ہے جاناں یہ ترا پیرہنِ تنگ
تن چاہیے پیراہنِ جاناں کے لئے بھی
یہ جوئے تنک آب ہمیں راس نہ آجائے
موقع ہے ابھی ابرِ گریزاں کے لئے بھی
سب صرف نہ کر موسمِ گل پر دلِ ناداں
کچھ گرمیِ جاں شامِ زمستاں کے لئے بھی
شہروں سے نکل کر ترے دیوانے کہاں جائیں
کم پڑنے لگے دشت غزالاں کے لئے بھی
اب یوں ہے کہ ہنگامۂ محفل میں ہیں خاموش
مشہور تھے جو ہوُئے بیاباں کے لئے بھی
عرفان صدیقی