عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 212
دروازوں پر دن بھر کی تھکن تحریر ہوئی
مرے شہر کی شب ہر چوکھٹ کی زنجیر ہوئی
سب دھوپ اتر گئی ٹوٹی ہوئی دیواروں سے
مگر ایک کرن میرے خوابوں میں اسیر ہوئی
مرا سونا گھر مرے سینے سے لگ کر روتا ہے
مرے بھائی‘ تمہیں اس بار بہت تاخیر ہوئی
ہمیں رنج بہت تھا دشت کی بے امکانی کا
لو غیب سے پھر اک شکل ظہور پذیر ہوئی
کوئی حیرت میرے لہجے کی پہچان بنی
کوئی چاہت میرے لفظوں کی تاثیر ہوئی
اس درد کے قاتل منظر کو الزام نہ دو
یہ تو دیکھنے والی آنکھوں کی تقصیر ہوئی
کسی لشکر سے کہیں بہتا پانی رُکتا ہے
کبھی جوئے رواں کسی ظالم کی جاگیر ہوئی
پھر لوح پہ لٹنے والے خزانے لکھے گئے
مجھے اب کے برس بھی دولتِ جاں تقدیر ہوئی
عرفان صدیقی