عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 214
اب کے صحرا میں عجب بارش کی ارزانی ہوئی
فصل امکاں کو نمو کرنے میں آسانی ہوئی
پیاس نے آب رواں کو کر دیا موج سراب
یہ تماشا دیکھ کر دریا کو حیرانی ہوئی
سر سے سارے خوان خوشبو کے بکھر کر رہ گئے
خاک خیمہ تک ہوا پہنچی تو دیوانی ہوئی
دُور تک اُڑنے لگی گرد صدا زنجیر کی
کس قدر دیوار زنداں کو پشیمانی ہوئی
تم ہی صدیوں سے یہ نہریں بند کرتے آئے ہو
مجھ کو لگتی ہے تمہاری شکل پہچانی ہوئی
MERGED اب کے صحرا میں عجب بارش کی ارزانی ہوئی
فصلِ امکاں کو نمو کرنے میں آسانی ہوئی
پیاس نے آبِ رواں کو کردیا موجِ سراب
یہ تماشا دیکھ کر دریا کو حیرانی ہوئی
سر سے سارے خوان خوشبو کے بکھر کر رہ گئے
خاکِ خیمہ تک ہوا پہنچی تو دیوانی ہوئی
دور تک اڑنے لگی گردِ صدا زنجیر کی
کس قدر دیوارِ زنداں کو پشیمانی ہوئی
عرفان صدیقی