عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 195
احوال اس چراغ کا گھر نے کہا نہیں
دستک جو دی تو سایۂ در نے کہا نہیں
پائے طلب کنارِ زمیں تک پہنچ گئے
میں رک گیا تو وحشتِ سر نے کہا نہیں
دستِ رفو نے سینے کے سب زخم سی دیئے
اندر کا حال ناز ہنر نے کہا نہیں
خوش تھی ہوا کہ راہ کا ہر سنگ ہٹ گیا
تب سر اٹھا کے خاکِ گزر نے کہا نہیں
نوکِ سناں نے بیعتِ جاں کا کیا سوال
سر نے کہاں قبول‘ نظر نے کہا نہیں
مدت سے اک سکوت ہمارا نشان تھا
ہم حرف زن ہوئے تو اثر نے کہا نہیں
عرفان صدیقی