عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 181
ذرا سا وقت کہیں بے سبب گذارتے ہیں
چلو یہ شام سرِ جوئے لب گذارتے ہیں
تو اک چراغِ جہانِ دگر ہے کیا جانے
ہم اس زمین پہ کس طرح شب گذارتے ہیں
ہمارا عشق ہی کیا ہے‘ گذارنے والے
یہاں تو نذر میں نام و نسب گذارتے ہیں
خراج مانگ رہی ہے وہ شاہ بانوئے شہر
سو ہم بھی ہدیۂ دستِ طلب گذارتے ہیں
سنا تو ہو گا کہ جنگل میں مور ناچتا ہے
ہم اس خرابے میں فصلِ طرب گذارتے ہیں
عرفان صدیقی