سخن یہ بے خبری میں کہاں سے آتے ہیں

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 180
پرند نامہ بری میں کہاں سے آتے ہیں
سخن یہ بے خبری میں کہاں سے آتے ہیں
ہمیں بھی یاد نہیں ہے کہ ہم شرر کی طرح
ہوا کی ہم سفری میں کہاں سے آتے ہیں
مسافتیں کوئی دیکھے کہ ہم سرابوں تک
گمانِ خوش نظری میں کہاں سے آتے ہیں
گھروں میں آنکھیں‘ دروں میں چراغ جلتے ہوئے
یہ خواب دربدری میں کہاں سے آتے ہیں
یہ کون جادۂ گم گشتگاں اجالتا ہے
فرشتے دشت و تری میں کہاں سے آتے ہیں
اگر تراوشِ زخم جگر نہیں کوئی چیز
تو رنگ بے ہنری میں کہاں سے آتے ہیں
عرفان صدیقی

جواب دیں

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

آپ اپنے WordPress.com اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Facebook photo

آپ اپنے Facebook اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Connecting to %s