عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 159
تمام معرکے اب مختصر کروں گا میں
یہ ایک سینہ کہاں تک سپر کروں گا میں
وہی عصا کا خدا ہے‘ وہی سمندر کا
وہ مرحلہ کوئی دے گا تو سر کروں گا میں
کوئی دُعا ہوں‘ کسی اور سے معاملہ ہے
صدا نہیں کہ سماعت میں گھر کروں گا میں
پرانی خوشبوؤ! اب میرے ساتھ ساتھ نہ آؤ
یہاں سے اگلی رتوں کا سفر کروں گا میں
وہ اک کھنڈر ہے‘ مگر راستے میں پڑتا ہے
سو ایک رات وہاں بھی بسر کروں گا میں
اجاڑ دشت میں کچھ زندگی تو پیدا ہو
یہ ایک چیخ یہاں بھی شجر کروں گا میں
عرفان صدیقی