عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 163
بدن کے دونوں کناروں سے جل رہا ہوں میں
کہ چھو رہا ہوں تجھے اور پگھل رہا ہوں میں
تجھی پہ ختم ہے جاناں مرے زوال کی رات
تو اب طلوع بھی ہوجا کہ ڈھل رہا ہوں میں
بلا رہا ہے مرا جامہ زیب ملنے کو
تو آج پیرہنِ جاں بدل رہا ہوں میں
غبارِ راہ گزر کا یہ حوصلہ بھی تو دیکھ
ہوائے تازہ ترے ساتھ چل رہا ہوں میں
میں خواب دیکھ رہا ہوں کہ وہ پکارتا ہے
اور اپنے جسم سے باہر نکل رہا ہوں میں
عرفان صدیقی